سلام اے محسن
عنوان *سلام اے محسن*
بقلم *مرحاشہباز*
دیکھا نہ کوہ کن کوٸی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوٸی استاد کے بغیر
اساتذہ وہ ہستی ہیں جن کی شان میں جتنا کچھ کہہ لو، کم ہے۔ زندگی میں کچھ اساتذہ تو کبھی بھولتے ہی نہیں۔ وہ ہم پر اپنا ایسا اثر ڈالتے ہیں جو تادیر قاٸم رہتا ہے۔ اُن کی زیرِ نگرانی ہم کبھی غلط راہوں کا انتخاب نہیں کرتے۔ ذہن کے دریچوں سے ماضی میں جھانک کر قرطاس پر چند عظیم لوگوں کی صفات بیان کرنا چاہوں تو ذہن میں کٸ نام ابھرنے لگتے ہیں اور خیالات کے انبار چلے آتے ہیں۔ کیونکہ ایسے کٸ لوگ ہیں جو بے آب و گیاہ صحرا میں بارانِ رحمت بن کر آۓ، تپتی دھوپ میں سایہ بنے اور دن گیارھویں رات بارھویں ترقی کا حوصلہ دے چلے۔ ان ابھرتے ناموں میں سے پہلا نام *مس آصفہ اقبال* کا ہے۔ " *یہ میرا شاہ باز بچہ ہے* ۔" یہ ایسا فقرہ ہے جو آج بھی مجھے شاہ باز بناۓ ہوۓ ہے۔ الفاظ کے وزن اب سمجھ آتے ہیں تو ساتھ ہی شدت سے اُن الفاظ کے بیش قیمت ہونے کا احساس بھی دلاتے ہیں جو ماضی قریب میں میرے انمول اساتذہ کے کہے گۓ ہیں۔
مس آصفہ وہ انسان ہیں جن سے سے میں نے محنت کرنا، خود کو محنت میں تپانا، تھکانا اور ہر کام پوری ایمانداری سے پایہ تکمیل تک پہنچانا سیکھا۔ کچھ لوگ واجب الاحترام ہوتے ہیں، وہ انھی میں سے ایک ہیں۔ اُن کے لیے میرے دل میں اس قدر احترام ہے کہ میں کچھ لکھنے کی سکت خود میں محسوس نہیں کر پا رہی۔ وہ *مسیحا* ہیں میرے لیے، میرے نزدیک وہ جوہری ہیں، دور اندیش ہیں، بہترین ناصح ہیں اور میری مصلح ہیں۔ وہ بلامبالغہ بے مثل ہیں، اُن سا کوٸی نہیں، کوٸی بھی نہیں۔ مجھے بہت سی خاص وجوہات کی بنا پر اُن سے خاص عقیدت تھی، تاحال ہے اور تادمِ مرگ رہے گی۔ مگر یہ عقیدت مجھے لکھنے سے مفلوج کر رہی ہے۔
اگلا ابھرتا نام *مسز ممتاز ظہیر قریشی* کا ہے جن کی موجودگی دل نواز احساس دلاتی تھی۔
سالِ دوم میں ہر صبح گیٹ پر ڈیوٹی دیتے ہوۓ، کچھ آشنا چہروں کا بےصبری سے انتظار ہوتا تھا۔ اور ایک گاڑی تو ایسی تھی جس کی نمبر پلیٹ کا نمبر اور ڈراٸیور کا چہرہ اور نام ازبر تھا۔ اُس گاڑی کو دیکھ کر جتنی خوشی ہوتی تھی، وہ ناقابلِ بیاں ہے۔ وہ گاڑی ہر دلعزیز مسز ممتاز کی تھی۔
آپ نے مجھ سمیت کٸ طالبات کو بولنے کا حوصلہ دیا۔ ہمیشہ کہا بولو بھلے ہی تھوڑا یا غلط بولو۔ آج چپ رہو گے تو ہمیشہ چپ ہی رہو گے۔ غلط بولو گے تو میں اصلاح کر دوں گی۔ بس بولو ضرور۔
آپ کسی کو تکلیف نہ دیتی تھیں۔ فطرت کی مداح تھیں۔ ایک بار ایک لڑکی کی اساٸنمنٹ چیک کر کے کہا بیٹے یہ تو کافی کم لکھا ہے۔ پتہ نہیں کیوں مگر وہ لڑکی رونے لگی۔ اگرچہ اُن کی کوٸی غلطی نہ تھی پھر بھی جیسے ہی اُس لڑکی کی آنکھ میں آنسو دیکھے یکدم بول اٹھیں I am sorry میرا مقصد آپ کو hurt کرنا نہیں تھا۔ اس دو چار منٹ کے واقعہ کا میرے ذہن پر کیا اثر پڑا، شاید میں کبھی اُس احساس کو الفاظ کا جامہ نہ پہنا سکوں۔
بعض لوگ واجب المحبت ہوتے ہیں۔ وہ انھیں میں سے ایک تھیں۔ آج بھی ان سے ملنے اور بہت کچھ سیکھنے کا دل چاہتا ہے۔
عمر میں اگرچہ مجھ سے کٸ سال بڑی تھیں مگر میں انھیں خود سے بھی زیادہ پرجوش اور چست محسوس کرتی تھی۔ ہمیشہ چہرے پر ایک سکون ہوتا تھا۔ مسکراہٹ اتنی دلکش کہ الفاظ ندارد۔ میں جاب کے بعد پہلی بار کالج گٸ تو کہنے لگیں خوشی ہوتی ہے اپنے بچوں کو کماتا دیکھ کر۔ اتنی سی بات نے مجھے سکون سے اور میری آنکھوں کو چمک سے بھر دیا۔
آج بھی حقیقی انسان کی مثال دینی ہو تو میں اُن ہی کی دوں گی۔ انسان کیا، انھیں جانوروں پر بھی مہربان پایا۔ بچے کیا، انھیں ہر پِیر و جواں پر مہربان پایا اور مہربانی کے اسی درس کو انھوں نے اپنے عمل سے اپنے شاگردوں میں بھی منتقل کیا۔
میرے لیے دنیا کے تمام خزانوں سے بڑھ کر اُن کے کچھ الفاظ ہیں جن میں سے ایک فقرہ یہ تھا
"ایسے طلبا ادارے کا asset ہوتے ہیں۔"
جس لمحہ کلاس میں یہ کہا گیا تھا، باخدا مجھے asset کا معنی معلوم نہ تھا مگر جس خلوص سے یہ کہا گیا تھا، میں پُریقین تھی کہ کچھ بہت اچھا معنی ہو گا۔ جب گھر آ کر ڈکشنری سے دیکھا تو معنی معلوم ہوا اور خود پر فخر محسوس ہوا۔
اُن کے ساتھ اتنی یادیں ہیں کہ حد نہیں۔ یادوں کا دریا نہیں بلکہ بےکراں سمندر ہے۔ اتنی یادیں ہیں کہ میں لکھتی رہوں تو سالوں بعد ختم ہوں مگر اُن کا تاثر مجھ پر صدیوں تک قاٸم و داٸم رہے گا۔ بلاشبہ ایسے نابغہ روزگار لوگوں کے لیے دل سے دعاٸیں نکلتی ہیں اور کیوں نہ نکلیں کہ انھی جیسے لوگ ہی تو ہیں جو انسان کو بدلنے کی بھی طاقت رکھتے ہیں۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
اُن کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
تیسرا ابھرتا نام ڈاکٹر ہما مشتاق کا ہے۔ یہ بھی واجب المحبت و احترام انسانوں میں شمار ہوتی ہیں۔ میں نے لوگوں سے سنا ہے کہ میں باادب ہوں۔ مگر اس میں میرا کوٸی کمال نہیں۔ اِن جیسے ہی کچھ خاص لوگوں کا کمال و فیض ہے۔ میرے باادب ہونے کے پسِ پردہ اگر آج کوٸی محرک کارفرما ہے تو سب سے بڑھ کر ڈاکٹر ہما ہیں۔ وہی ہیں جن کے سامنے اگر کسی بلند پایہ انسان کے لیے ناسمجھی میں غلط الفاظ کا چناٶ کر دیا تو انھوں نے میری سوچ اور خام خیالی کی بہترین انداز میں اصلاح کی۔ بحیثیتِ استاد، مسِ خام کو کندن بنانے کی پوری کوشش کی۔ انھوں نے انسانوں کے سہارے سے دور کر کے چھوٹے چھوٹے مساٸل خود سلجھانے کی ترغیب دلاٸی۔
” *اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد نہ کیا* ۔“
یہ اُن کا پڑھایا اور سکھایا زمانے کا وہ مشکل ترین سبق ہے جو آج تک ہر اونچ نیچ میں میرے ہمدم ہے۔ آج میرے ذہن میں پنپتے خیالات میں بنیادی کردار اُنھی کا ہے۔ وہ جنھوں نے مجھے مزید باادب بنایا، ادب کے زینے عبور کراۓ، بڑوں کے سامنے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنے سے چیونگم چبانے سے روکنے تک، جتنے چھوٹے بڑوں کاموں میں آج ادب کو ملحوظ خاطر رکھتی ہوں، اُن ہی کی اعلی صحبت کے باعث ہے۔ پانی کھڑے ہو کر نہ پینے سے جوتا سنت کے مطابق پہننے اتارنے تک آج میری اطاعتِ سنتِ نبوی کا ثواب انھیں بھی ملتا ہے۔ اگر وہ باعمل نہ ہوتیں، تو میں کبھی اُن سے یہ سب سیکھ نہ پاتی۔
غرض اساتذہ بہت ہیں، جن کی مشترکہ کوششوں سے آج کچھ کرنے کے قابل ہوں۔ مس آصفہ کے ساتھ رہنے کی بدولت حق گوٸی کے قابل ہوں۔ ڈاکٹر ہما کی بدولت "سبق یاد کرنے کے باوجود چھٹی نہ ملنے پر" صبر کرنے کے قابل ہوں۔ مسز ممتاز کی بدولت مہربان ہونے پر قادر ہوں۔ یہ تین انسان بس استاد نہیں، بلکہ حقیقتاً معمارِ قوم ہیں۔ انتہاٸی عاجز، سلیقہ شعار، کھرے، مخلص اور دردِ دل رکھنے والے انسان۔ میں نے استاد کے نام پر دھبے بھی دیکھے ہیں مگر یہ اعلی و برتر ہیں۔ اِن کے احسانات کا بدلہ میں کبھی نہیں چُکا سکتی۔ بس دل سے کچھ دعاٸیں اِن کے نام کر سکتی ہوں، جو کرتی رہوں گی۔
*کچھ لوگ پوچھتے ہیں کمال ہنر میرا*
*کچھ باکمال لوگ میری دسترس میں ہیں*
Pratikhya Priyadarshini
08-Oct-2022 09:00 PM
Nice 🌺
Reply
Raziya bano
08-Oct-2022 08:40 PM
Nice
Reply
Sona shayari
08-Oct-2022 07:19 PM
بہت بہت عمده
Reply